ا ز قلم:- رونق علی امجدی
متخصص :ازہری دارالافتاءناسک
اخلاص اوراللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا اسلام میں بہت بڑی خوبی اورتمام نیکیوں کی بنیاد ہے،قربانی جو اسلام کا اہم شعاراورابوالانبیا سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی عظیم یادگار ہے وہ اخلاص وللہیت کا شرچشمہ ہے اورکیوں نہ ہوکہ یہ عمل اس نبی محتشم کی اس پیاری اداکی یادہے جو اخلاص وللہیت سے عبارت تھی اوروہ اللہ کے پیارے خلیل ہیں یعنی حضور رحمت دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جد کریم سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علی نبیناوعلیہ الصلاۃ والسلام ،اورازروے فقہ اسلامی دیگر عبادات مقصودہ کی طرح قربانی میں بھی نیت شرط صحت ہے یعنی جب تک خون بہانے سے اللہ کی رضا اورحصول تقرب کا قصد وارادہ نہیں کرےگا اس وقت تک قربانی نہیں ہوگی بلکہ وہ محض حصول گوشت کا ذریعہ وسبب ہےلہذا قربانیوں میں اخلاص اوررضائے مولیٰ کا حصول اہم ترین مقاصد قربانی سے ہیں رہاگوشت تو وہ محض ضمناً جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ضیافت فرماتاہے ۔
مگر جوں جوں زمانہ خیر القرون سے دورہوتاجارہاہے،اسی تیزی کے ساتھ لوگ قربانی کی روحانیت سے دورہورہے ہیں ،آج قربانی جیسی عبادت میں ریاوسمعہ بہت عام بات ہوگئی ہے،ازروئے فرمان نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب قربانی وہ ہے جو خوبصورت اورقیمتی ہو مگر یہ بھی اخلاص نیت کے ساتھ مشروط ہے،لہذا جس نے بہت مہنگا جانور خریدامگر لوگوں کو دکھانے کے لیے اوراپنی واہ واہی کے لیے تو اس کی قربانی نفس نیت کے ساتھ اگرچہ ہوجائے گی مگر ایساشخص اس پر مستحق اجر وثواب نہیں ہوگا ،اسی کا صاف وشفاف درس قرآن مجید کی اس آیت کریمہ میں ہے اللہ عزوجل ارشادفرماتاہے۔ لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰـكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ(سورۃ الحج، آیت ۳۴)اللّٰہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون، ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک بار یاب ہوتی ہے۔(ترجمہ کنزلایمان )اس آیت کریمہ سے روز روشن کی طرح صاف اورعیاں ہے کہ قربانی کرنے والے کااخلاص اور اس کی پرہیزگاری ہی رضائے الٰہی کی موجب ہے۔ چناں چہ اسی آیتِ کریمة کی تفسیر کرتے ہوئے صدر الافاضل حضرت مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ نے فرما یا یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت اخلاص اور شروط تقویٰ کی رعایت سے ہی اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکتے ہیں۔( خزائن العرفان)اس آیت سے ان لوگوں کا بھی بخوبی رد ہوتاجاتاہے جو لوگ قربانیوں میں دکھاواکرتے ہیں ،شان نزول:۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمة کا شان نزول یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں کفار اپنی قربانیوں کے خون سے بیت اللہ شریف کی دیواریں رنگتے اور اسے تقرب الی اللہ کا سبب جانتے تھے اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، اور ان کی صریح لفظوں میں تردید کی گئی۔پس قربانی کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ قربانی خالص گوشت، سوسائٹی، اور گاؤں محلہ میں شہرت یابی کی غرض سے نہ کریں، بلکہ قربانی سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کا قصد ہو۔
نیک نیتی اور اخلاص کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں
اسی آیت کریمہ سے یہ بات بھی نمایاں ہو گئی کہ وہ عمل خیر جو خلوصِ قلبی اور حُسن نیت کے بغیر کیا جاتا ہے، وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں شرف قُبُولیّت کے مقام کو نہیں پہنچتا ہے۔ پس جو شخص اخلاص کے کانسیپٹ سے آگاہ نہ ہو وہ مُخلص کیسے ہو سکتا ہے؟ جبھی تو حضورنبی کریم ﷺ نے حضرت مُعاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ’’اِخلاص کے ساتھ عمل کرو کہ اِخلاص کے ساتھ تھوڑا عمل بھی تمہیں کافی ہے۔‘‘پس جو عمل اخلاص سے خالی ہو اور اس سے مقصود ریاکاری دکھاوا ہو تو یقیناً اس پر گناہ ملے گا اور اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب کا سبب بنےگا اور اس کے برعکس جو عمل خالصاً اللّٰہ عزوجل کی رضاو خوشنودی کے لئے ہو تو وہ اجر و ثواب کا سبب بنے گا خواہ وہ عمل قربانی کے قبیل سے ہو یا دیگر امور صالحہ کےقبیل سے لہٰذا اوّلاً توہم کو اپنی نیت درست کرنی چاہیے کیوں کی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے جب تک نیت نہ ہوگی ،عمل میں اخلاص پیدا نہیں ہوگا کیوں کہ نیک نیتی ہی کانام’’ اخلاص ‘‘ ہے۔ جبھی تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ کسی عمل کو قبول نہیں کرتا مگر جو خلوص نیت اور رضائے الٰہی کے لیے کیا جائے۔ (سنن نسائی ۳۱۹۲)
قربانی میں اخلاص کا درس
قربانی میں اخلاص کا درس کس طرح مخفی اورپوشیدہ ہے یہ جاننے کے لیے ہمیں واقعۂ قربانی کا پس منظر جاننا ضروری ہے ،اس لیے اس راز کو سمجھنے کے لیے واقعاتِ قربانی کے پس منظر کی طرف چلیں ،راقم السطورطمع رکھتاہے کہ واقعہ قربانی کے پس منظر سے درس اخلاص بخوبی واضح وعیاں ہوجائے گا ،مطولات میں اس کی بہت تفصیل بیان کی جاتی ہے یہاںاختصارکے ساتھ نذرقارئین کیاجاتاہے:جب حضرتِ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی عمرشریف ۹۹ سال کی ہوئی تو آپ کو شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ ملت براہیمی کی نشر و اشاعت کے لئے ایک ولد صالح کی ضرورت ہے۔ جو میرے بعد میری نیابت کا فریضۂ منصبی بحسن و خوبی نباہ سکے۔پس حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بڑی ہی رقت و خلوصِ قلبی کے ساتھ اولاد کی خاطر دعاء کی کہ “الٰہی مجھے ایک ولدِ صالح عطا فرما” آپ کی دعاء اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کوولد صالح کے مژدۂ جانفزا سے نوازا۔اور آپ کے گھر حضرت سیدنااسماعیل علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی،اورخواب ہی میں حکم ہواکہ آپ اپنی شریک حیات سیدہ ہاجرہ اورننھے بچے اسماعیل کو شہر مکہ چھوڑآئیں چناں چہ ایساہی ہوا پھر جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر ٦ یا ۱۳ سال کی ہوئی تو الله رب العزت نے آپ کو خواب کے ذریعے دکھایا کہ وہ آپ سے آپ کی سب سے پسندیدہ چیز یعنی آپ کے بیٹے کی قربانی چاہتا ہے۔چناں چہ حکم رب پر اپنے فرزند ارجمند کو قربان کرنے کا عزم مصمم کرلیااورحکمِ خداوندی کے مطابق حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے ہمراہ لے کر میدان منیٰ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب اپنے ولد صالح کے ہمراہ منیٰ کے میدان میں پہنچے تو آپ نے اپنے بیٹے کو آنے کا مقصد بتایا۔ بولے اے میرے بیٹے میں نے خواب میں تجھ کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ تو اب دیکھ تیری کیا رائے ہے۔ ؟فرمابردار بیٹے اور فرزندِ اَرْجْمند نے اللہ تعالیٰ کی رضا پر فدا ہونے کا کمالِ شوق سے اظہار کرتے ہوئے فرمایا جس کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا ’’ یَاابتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْن ‘‘’’والدِ بزرگوار۔! آپ وہی کریں جس کا آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے۔ بعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے حلقوم پر چھری چلانی شروع ہی کی تھی کہ بحکم رب تعالیٰ چھری چلنے کا نام نہیں لے رہی تھی مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم وفرمان پر عمل کرنے کے پروانہ وار چھری چلاتے رہے حتی کہ غیب سے ایک ندا آئی اے خلیل! آپ نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا پس یہ ذبیحہ تمہارے بیٹے اسماعیل کی جانب سے فدیہ ہے اپنے بیٹے کے بدلے اس کو ذبح کر ڈالو۔چناں چہ اللہ تعالیٰ نے جنت سے ایک مینڈھا بھیجا اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی چھری چل گئی ۔مذکورہ واقعہ سے ہمیں اخلاص و للہیت کا یہ عظیم درس ملتا ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رضائے الٰہی کے لئے اپنے فرزندِ ارجمند کو قربان کرنے کا عزم کر لیااورکچھ بھی تردد نہیں فرمایا۔ ٹھیک ہمیں بھی اِسی طرح قربانی کرتے وقت دل میں یہ عقیدہ و ایمان رکھنا چاہئے کہ جو قربانی ہم اللہ کی راہ میں پیش کر رہے ہیں وہ خالصاََ لوجه الله اور اس کی رضا جوئی ہی کے لئے ہواس میں ریاوسمعہ کو ہرگز ہرگز دخل ہونے نہ دیں۔ دعاہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ قربانی کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔اورسبھوں کی قربانیاں قبول فرمائے،آمین یا رب العالمین بجاہ حبیبہ سیدالمرسلین۔
Leave A Comment