قرض ہوتے ہوئے حج وعمرہ کو جانا کیسا؟
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان اسلام اس مسئلہ میں کہ
اگر کسی پر قرض ہو تووہ حج وعمرہ کے لیے جا سکتاہے ؟اسی طرح قرض دارہوکر کسی اولیاء اللہ کی مزارات پر جانا کیساہے ؟کیوں کہ سفرمیں آنے جانے میں کھانے پینے میں اوررہنے کی ضرورت میں پیسے کی ضرورت تو ہوگی، دینی رہنمائی کی درخواست ہے ۔
المستفتی : محمد طاہر ظہور خان ،ساکن:ایولہ،مہاراشٹر
﷽
حامداومصلیا ومسلماالجوابـــــــــ بعون الملک الوھاب
جس پر قرض ہواسے چاہیے کہ ادائے قرض کی قدرت ہوتے ہوئے پہلے لوگوں کے قرضے اداکرے پھر حج یا عمرہ کو جائے،قرض کا بوجھ سرپر لے کر حج یا عمرہ کرنے سے اگرچہ حج وعمرہ صحیح ودرست ہوجائیں گےجبکہ حج کے شرائط وارکان وغیرہ بجالائے تاہم قرض ہوتے ہوئے ان جیسے نیک کاموں میں مشغول رہنا سخت ہلاکت وبربادی کا سبب ہے کہ قرض کی ادائیگی حق العبد ہے جبکہ حج کرنا حق اللہ اورشرعی نقطۂ نظر سے حقوق اللہ سے زیادہ بندوں کے حقوق کی حفاظت مؤکد ہے حتی کہ ہمارے فقہاصراحت فرماتے ہیں کہ اگرکوئی انتقال کرجائےاور اس کے ذمہ کسی بندے کا کوئی مالی حق باقی ہو ساتھ ہی اس پر کچھ نمازوں اورروزوں کے فدیے ہوں تو پہلے اس کے مال سے اس کے قرضے اداکیے جائیں گے پھر اگر اس نے فدیہ کی وصیت کی ہوتو اس کے ثلث مال سے فدیہ اداکیا جائے گایا اس کے وارثین میں سے کوئی تبرعا اداکرسکتاہے تاہم وارثین پرفدیہ دینا واجب نہیں،تنویر الابصارمع درمختاروردالمحتارمیں ہے:
’’تقدم دیونہ التی لھا مطالب من جھۃ العبادواما دین اللہ تعالیٰ فان اوصی بہ وجب تنفیذہ من ثلث الباقی‘‘ وتحتہ فی الشامیہ ’’فانھا تسقط بالموت فلایلزم الورثۃ اداؤھا الا اذا اوصی بھا اوتبرعوا بھا ھم من عندھم‘‘[کتاب الفرائض ،ج۱۰:۔ص۴۹۵:]
نیز حدیث شریف میں ایسے لوگوں کے بارے سخت تہدیداورشدید وعید وارد ہوئی ہےجوقرض کا بوجھ لے کر دنیا سے فوت ہوجائیںچناں چہ سنن ترمذی شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
’’قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ’’نفس المومن معلقۃ بدَینہ حتی یُقضی
عنہ‘‘یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن کی روح دَین(قرض)کی وجہ سے معلق رہتی ہے یہاں تک اس کا قرض ادا کردیاجائے ۔
[کتاب الجنائز،باب ماجاء عن النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ ان نفس المومن الخ]
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے ،وہ کہتے ہیں:
ہم صحن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی تشریف فرماتھے،حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اوردیکھتے رہے پھر نگاہ نیچی کرلی اور پیشانی پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:سبحان اللہ سبحان اللہ کتنی سختی اتاری گئی،کہتے ہیں ہم لوگ ایک دن ایک رات خاموش رہے جب دن رات خیر سے گذرگئے اور صبح ہوئی تومیں نے عرض کی وہ کیا سختی ہے جو نازل ہوئی؟ارشادفرمایا:دَین کے متعلق ہے،قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میںمحمد( صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی جان ہے اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کیا جائے پھر زندہ ہو، پھر قتل کیا جائے پھر زندہ ہو پھر قتل کیاجائے پھر زندہ ہو اور اس پر دَین ہو توجنت میں داخل نہ ہوگا جب تک ادا نہ کردیاجائے۔[مسند امام احمدابن حنبل،۸/۳۴۸]
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مقروض کے بارے اتنا سخت احتیاط فرماتے تھے کہ ایسے مردوں کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھا کرتے تھے چناں چہ صحیح بخاری شریف میںحضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،وہ بیان کرتے ہیںکہ ہم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے ایک جنازہ لایا گیا لوگوں نے عرض کی ،اس کی نماز پڑھائیے،فرمایا:اس پر کچھ دَین(قرض) ہے؟عرض کی:نہیں،اس کی نماز پڑھادی،پھر دوسرا جنازہ آیا ارشادفرمایا:اس پر دَین (قرض)ہے؟عرض کی:ہاں ،فرمایا:اس نے کچھ مال چھوڑاہے ؟لوگوں نے عرض کی:تین دینارچھوڑے ہیں،اس کی نماز بھی پڑھا دی،پھر تیسراجنازہ لایاگیا ارشادفرمایا:اس پر کچھ دین ہے؟لوگوں نے عرض کی تین دینارکا مدیون ہے،ارشاد فرمایا:اس نے کچھ چھوڑاہے ؟لوگوں نے کہا: نہیں ،فرمایا:تم لوگ اس کی نماز پڑھ لو،اس پرحضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نمازپڑھائیں اس کا دین میرے ذمہ ہے تو حضور نے نماز پڑھی۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’عن سلمۃ بن الاکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال:کنا جلوسا عند النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اذ أُتی بجنازۃ ،فقالوا:صل علیھا،فقال:’’ھل علیہ دین‘‘؟ قالوا:لا، قال:’’فھل ترک شیئاً‘‘؟،قالوا:لا، فصلی علیہ،ثم أُتی بجنازۃ اُخری،فقالوا:یا رسول اللہ! صل علیھا،قال:’’ھل علیہ دین‘‘؟، قیل:نعم، قال:’’فھل ترک شیئاً‘‘؟، قالوا:ثلثۃ دنانیر، فصلی علیھا،ثم اُتی بالثالثۃ،فقالوا:صل علیھا،قال:’’ھل ترک شیئاً‘‘؟ قالوا:لا، قال: ’’فھل علیہ دین‘‘؟،قالوا:ثلثۃ دنانیر،قال:’’صلوا علی صاحبکم‘‘،قال ابوقتادۃ:صل علیہ یارسول اللہ!وعلیَّ دینہ،فصلی علیہ‘‘
[صحیح البخاری،کتاب الاجارہ،باب اذااحال دین المیت علی رجل جاز،ج:۱،ص:۳۰۵]
مذکورہ بالاحوالوں سے بخوبی ظاہر ہوگیا کہ جس پر قرض ہو اسے پہلے قرض اداکرنا واجب ہے پھر اگر حج یا عمرہ کی وسعت پائے توحج یا عمرہ کو جائے اوراگر حج یا عمرہ کے سبب قرض کی ادائیگی میں تاخیر کیا حتی کہ وصال کر گیا تو عذاب قبر کا خطرہ اورحق العبدمیں گرفتارہوگا۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
ابوالاخترمشتاق احمدامجدی غفرلہ
ازہری دارالافتاء،ناسک
۲۶؍ربیع الثانی ۱۴۴۴ھ /۲۰؍نومبر ۲۰۲۲ء
Leave A Comment