ویڈیوسے زناکا ثبوت ہوگا یانہیں؟
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ
زید ایک خاتون کاعلاج کر رہا تھا اسی دوران کسی نے ویڈیو بنائی جس میں یہ نظر آرہا ہے کہ زیداُس خاتون کے اعضاء خاص پر ہاتھ لگا رہا ہے۔ صورت مسئولہ میں زید کے لیے حکم شرع کیا ہے ؟
زید کی بنی ہوئی اس ویڈیو پر حکم شرع کیا ہوگا ؟
کیا ویڈیو شرعی ثبوت کے لیے کافی ہے ؟کچھ ائمہ کرام نے زید کی بنی ہوئی اس ویڈیو کو دیکھ کر اپنی مسجد سے یہ اعلان کیا ہے کہ زید زانی ہے اس کا بائیکاٹ کیا جائےجب تک زید توبہ نہ کرلے ۔ کیا ایسا اعلان درست ہے ؟ اور جس نے ایسا اعلان کیا اس کے لئے حکم شرع کیا ہے ؟
زید اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے بھساول کے ایک جلسے میں اس طر ح سے اعلان کیا ہے کہ بشر شرسے بنا ہے ہر انسان میں کچھ نہ کچھ خامیاںہوتی ہیں اگر واقعی مجھ سے ایسا گناہ ہوا ہے تو میں اپنے تمام صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے توبہ کرتا ہوں ۔ کیا زید کا اس طرح سےتوبہ کرنادرست ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں ۔
المستفتی: محمد اخلاق رضو ی، بھساول،مہاراشٹر
﷽
حامداومصلیا ومسلماالجوابـــــــــ بعون الملک الوھاب
بوقتِ ضرورت بغرضِ علاج مرد وعورت کے واجب الستر کسی عضوکو ڈاکٹر کے سامنے کھولنا، ڈاکٹر کا اسے چھونا اور دیکھنے کی ضرورت ہو تو دیکھنا جائزوروا ہے پھر اگرعورت ڈاکٹر سے عورتوں کا علاج ممکن ہو تو عورتوں کو مرد ڈاکٹر کے سامنے اپنے مواضعِ ستر کو بغرض علاج بھی کھولنا جائز نہیں،عورت ڈاکٹر سے علاج ممکن نہ ہونے کی صورت میں جس قدر کشفِ ستر کی ضرورت ہو اتنا جائز، اس سے تجاوز ناجائز ،مثلا کپڑے کے اوپر سے محض ٹٹولنے سے علاج کرسکتاہوتو کپڑے کے اوپرسے ٹٹولناجائز ،اسے برہنہ کرنا ناجائز، پھر اگر برہنہ محض چھونے سے کام چل جائے توچھونا جائز ،اسے دیکھنا حرام اور اگر دیکھے بغیر علاج نہ ہوسکے تو جس قدر دیکھنے سے علاج ہوجائے اتنا دیکھنے کی گنجائش ہے،اس سے زیادہ دیکھنا اب بھی حرام وگناہ،شیخ الاسلام برہان الدین علی
بن ابوبکرمرغینانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رقم فرماتے ہیں :
’’یجوز للطبیب ان ینظرالی موضع المرض منھاللضرورۃ وینبغی ان یعلِّم امرأۃ مداواتھالان نظرالجنس الی الجنس اسھل فان لم یقدروایسترکل عضومنھاسوی موضع المرض ثم ینظرویغضّ بصرہ مااستطاع لان ماثبت بالضرورۃ یتقدر بقدرھا‘‘ یعنی ڈاکٹرکے لیے موضع مرض کوبقدرضرورت دیکھناجائز ہے اورمناسب ہے کہ وہ کسی عورت کو علاج سیکھادے(اورعورت عورت کا علاج کرے) کیوں کہ جنس کا ہم جنس کو دیکھنا آسان ہے پھر اگراہل خانہ اس پرقادرنہ ہوں تو بیماری کی جگہ کے سوا ہرعضو کوچھپادے پھر بیماری کی جگہ کو دیکھے اورجہاں تک ہوسکے اپنی نگاہ نیچی رکھے اس لئے کہ جوچیز ضرورۃًثابت ہووہ ضرورت بھرثابت ہوتی ہے ۔[ہدایہ اخیرین،کتاب الکراھیۃ ،فصل فی الوطی والنظروالمس،ج:۲ص:۴۴۳]
صورت مسئولہ میں زید جس خاتون کی شرمگاہ پر ہاتھ پھیر رہا تھا اگر واقعی بغرض علاج تھا جو عورت ڈاکٹر سے ممکن نہ تھا تو شرعا اس کی ممانعت نہ تھی،جس نے اس کی ویڈیو بنائی سراسر تعدی وظلم کیا اور اگر بغرض علاج نہ تھا یا مقصود علاج ہی تھا مگر چھونے کی ضرورت نہ تھی تو زید گنہ گار اور فاسق وفاجر تاہم محض اس سے اس کا زانی ہونا ثابت نہیں ہوتاکہ شرعا ثبوت زنا کے لیے مرتکب کا اقرار یا معائنہ زنا پر چار مرد گواہان شرعی مطلوب، ان دو طریق کےبغیر زنا کا ثبوت نہیں ہوسکتا،پیش آمدہ واقعہ میں دونوں باتیں مفقود ہیں جیساکہ استفتامیں بیان کردہ تفصیلات سے ظاہر ،رہازید کا برسراسٹیج اعتراف جرم کرتے ہوئے مذکورہ قول کرنا سو وہ ثبوتِ زنا کے لیے ناکافی یونہی اس بارے میں وہ ویڈیو بھی کالعدم، پس زید کو محض اس کی وجہ سے زنا کار نہیں کہہ سکتے،فقط اس ویڈیو کی وجہ سے اس کےمرتکبِ زنا اور مقاطعہ کا اعلان شرعا ناروا اور گناہ ہے۔زید کا مذکورہ اقرار’’بشر شر سے بناہے،ہرانسان میں کچھ نہ کچھ خامیاں ہوتی ہے اگرواقعی مجھ سے ایسا گناہ ہواہے تومیں اپنے تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں سے توبہ کرتاہوں‘‘اگرچہ ثبوت زنا کے لیے صریح نہیں ہےتاہم بلاضرورت شرعیہ مس ولمس(عورت کی شرمگاہ چھونا)تو اس کے اقرار سے ثابت ہے اوریہ شرعا حرام وگناہ اورجب اس کی تشہیر ہوچکی ہے توخاص اس گناہ سے علانیہ توبہ لازم، مذکورہ اجمالی اورمشروط توبہ ناکافی،اگر زید علی الاعلان خاص اس جرم کانام لے کر توبہ کرلے تو بعد توبہ اسے مورد ِالزام نہ ٹھہرایا جائے اوراگر توبہ سے گریز کرے اورجرم پر مصر رہے تو ضرور اس کامقاطعہ اورسوشل بائیکاٹ کیا جائے ۔درمختارمیں ہے :
’’یثبت بشھادۃ اربعۃ رجال فی مجلس واحد بلفظ الزنالامجرد لفظ الوطی والجماع ویثبت ایضاباقرارہ صریحا صاحیا الخ، یعنی ایک ہی مجلس میں لفظ زنا سے چارمردوں کی گواہی سے (زنا)ثابت ہوتاہے محض وطی یا جماع کہنا کافی نہیں اورحالت صحت میں مرتکب کے اقرارِ زنا سے بھی زنا ثابت ہوجاتاہے۔
[کتاب الحدود،ج:۶،ص: ۱۰ تا ۱۲]
شامی میں ہے:
’’ونصابھا للزنا اربعۃ رجال فلاتقبل شھادۃ النساء‘‘یعنیاور(ثبوت)زنا کے لیے شہادت کا نصاب چارمردہے پس عورتوں کی گواہی مقبول نہ ہوگی۔
[ردالمحتار حاشیہ درمختار،ج:۸،ص: ۱۷۶]
بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی قدس سرہ تحریرفرماتے ہیں:
’’توبہ کے لیے ضروری ہے کہ توبہ کرنے والااپنے کیے پر نادم وشرمندہ ہو اوراپنی بدکاریوں پر اس کو سخت افسوس اورغم ہو،حدیث شریف میں ہے:’’الندم توبۃ ‘‘توبہ کا پہلا رکن ندامت ہے پھر اگر وہ یہ حرام علی الاعلان کرتارہا تو اس پر یہ بھی ضروری ہے کہ انہیں عام لوگوں کے مجمع میں اپنے جرم کا اعتراف کرے اوراللہ تعالیٰ سے عہد کرے کہ یااللہ میں اپنے اس جرم سے توبہ کرتاہوں اورآئندہ کے لیے عہد کرتاہوں کہ یہ گناہ نہیں کروں گا ،توبۃ السربالسر والعلانیۃ بالعلانیۃ ،جس حرام کو سب سے چھپاکرکیا تو اس کی توبہ پوشیدہ طورپر کی جاتی ہے لیکن جس کے بارے میں سب کو معلوم ہوکہ یہ جرم یہ شخص کرتاہے تو اس کی توبہ علی الاعلان سب کے سامنے ہونی چاہیے ‘‘[فتاویٰ بحرالعلوم،کتاب السیر،ج۴:،ص ۳۹۱-۳۹۰:]۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
ابوالاخترمشتاق احمدامجدی غفرلہ
ازہری دارالافتاء،ناسک
۱۶؍جمادی الاولیٰ ۱۴۴۴ھ /۱۱؍دسمبر ۲۰۲۲ء

Leave A Comment