از:مفتی مشتاق احمد امجدی،ازہری دارالافتاء،ناسک
اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت کاملہ سے اس کائنات کو عدم سے وجود بخشا اورطرح طرح کی مخلوقات سے اسے مزین فرمایااوران میں حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کے تاج زریں سے سرفراز کیا ،اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں انسانوں کے ساتھ جنوں کو بھی اپنی اطاعت وفرماں برداری کا مکلف کیا نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سےکچھ بندوں کو اپنی بارگاہ کا مقرب بنایااورانہیں عام بندوں کی ہدایت ورہنمائی کا ذریعہ بنایا ایسے ہی مخصوص اورمقربین بارگاہ بندوں کو ’’نبی اوررسول‘‘کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سیدھا راستہ دکھانے کے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاومرسلین کو مبعوث فرمایا اورہرنبی اوررسول کو طرح طرح کے کمالات اورقسم قسم کے معجزات سے مشرف کیا جو ان کے دعوی نبوت ورسالت پر صداقت کی علامت ونشانی ہواکرتے ہیں کسی کو جاہ وجلال دیا توکسی کو ملک ومال کسی کو جودونوال بخشا تو کسی کوحسن وجمال کسی کو دس بیس معجزات عطافرمائے تو کسی کو سو پچاس اوربعض کو کچھ اوربھی زیادہ معجزات سے نوازا غرض کہ جس نبی کو جس ماحول میں بھیجا گیا اوروہاں جیسی ضرورت درپیش تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس وقت اوراس جگہ کی مناسبت سے خاص خاص معجزات سے سرفراز فرمایا مگر گروہ انبیاومرسلین میں محبوب خدا،حبیب کبریا ،رحمت دوجہاں ،خاتم پیغمبراں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ایسی آن بان اورنرالی شان کے ساتھ مبعوث فرمایاکہ آپ سے پہلے تمام انبیاے کرام میں سے ہرایک کو جس قدرکمالات وخوبیاں عطاکی گئی تھیں وہ سب تنہا آپ کی ذات بابرکات میں جمع فرمادیااس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نبی آخرالزماں، سرورکون ومکاںحضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کائنات عالم میں تمام اولین وآخرین کی تمام قوموں کی طرف نبی بناکر مبعوث کیے گئے جیساکہ خودحضور رحمت دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:’’بعثت الی الخلق کلہ‘‘ میں تمام مخلوقات کی طرف مبعوث کیا گیالہٰذا اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام نبیوں کے بھی نَبی ہیں،اس لیےاللہ تعالیٰ نے حضور رحمت دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کو تمام انبیاے سابقین کے تمام معجزات کاحسین مجموعہ اور پرنورسنگم بنادیابلکہ بے شمارمعجزات ایسے عطاکئےجو ہردور،ہرقوم اورہربرادری کے لوگوں کے لیے ضروری تھے اوروہ انبیاے سابقین کو نہیں دیے گئے،اعلیٰ حضرت عاشق ماہ نبوت سیدی امام احمدرضا قدس سرہ اپنے نعتیہ دیوان میں نظم فرماتے ہیں ـ:
معجزے انبیاکو خدا نے دئے
معجزہ بن کے آیا ہمارا نبی۱
مطلب یہ ہےکہ انبیاے سابقین کو معجزات عطا کیے گئے جبکہ حضور رحمت دارین ،شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سراپا معجزہ بناکر بھیجا گیاہے اسی لیے انبیاے سابقین کے معجزات محدود اورشمارمیں آنے والے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات ناقابل شمارہیں ،آپ کے مشہورمعجزات میں چاند کو دوٹکڑے کرنا ،ڈوباسورج واپس پلٹانا اورانگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری کرنا ،امام اہل سنت عاشق ماہ نبوت سیدی سرکاراعلیٰ حضرت ارشادفرماتے ہیں :
صاحب رجعت شمس وشق القمر
نائب دست قدرت پہ لاکھوں سلام۲
اگر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات کا تفصیلی جائزہ پیش کیاجائے تو کئی ضخیم جلدوں میں معجزات رسول کا شاہکارذخیرہ تیارہوجائے گا تاہم سردست صرف اس دعوی پر چند شہادتیں پیش کرنا مقصودہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ’’معجزات انبیاکے جامع تھے‘‘
چھڑی روشن ہوگئی
انبیاے سابقین میں ایک نمایاں نام حضرت سیدناموسی کلیم اللہ علیہ السلام کا ہے ،آپ کے معجزات میں ایک نمایاں معجزہ یہ بھی کہ آپ اپنا دست پاک اپنے بغل سے باہر نکالتے تو آپ کا ہاتھ مبارک ایسے روشن ہوجاتاہے جیسے آج کے ہمارے دورمیں برقی لائٹ (LED)روشن ہوجاتی ہے، قرآن حکیم نے اس معجزہ کو’’یدبیضا‘‘سے تعبیر فرمایا ،حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہ میں غورکرنےسے معلوم ہوتاہے کہ آپ کی سیرت طیبہ میں اِس نوع کا معجزہ بلکہ اس سے بڑھ کر اعجاز کی مثال موجودہے چناں چہ کتب احادیث میں ہے کہ دوصحابی رسول اندھیر ی رات میں بہت دیر تک حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے بات چیت کررہے تھے ،جن میں سے ایک کااسم گرامی حضرت اسید بن حضیراوردوسرے کا نام نامی حضرت عباد بن بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہماتھا ،حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اکتساب فیض کرتے کرتے رات زیادہ ہوگئی اورہرطرف سخت اندھیرا چھایاہواتھا ،جب ہم کلامی سے فارغ ہوئے اوردونوں بارگاہ رسالت مآب سے اپنے اپنے گھروں کے لیے روانہ ہونے لگے تو ناگاہ ایک کی چھڑی خود بخود روشن ہوگئی اوردونوں اس چھڑی کی روشنی میں چلتے رہے ،جب کچھ دورچل کر دونوں کے گھروں کا راستہ الگ الگ ہوگیا تو دوسرے کی چھڑی بھی روشن ہوگئی اوردونوں اپنی اپنی چھڑیوں کی روشنی کے سہارے سخت اندھیری رات میں اپنے اپنے گھروں تک پہنچ گئے ،جیساکہ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے،حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں :
’’عن انس ان اسید بن حضیر وعباد بن بشر تحدثا عندالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فی حاجۃ لھما حتی ذھب من اللیل ساعۃ فی لیلۃ شدیدۃ الظلمۃ ثم خرجا من عند رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ینقلبان وبیدکل واحد منھما عصیۃ واضاءت عصا احدھمالھما حتی مشیا فی ضوءھا حتی اذا افترقت بھما الطریق اضاءت للآخر عصاہ فمشی کل واحد منھما فی ضوء عصاہ حتی بلغ اھلہ ۔رواہ بخاری ‘‘۳
اس حدیث شریف میں غورکریں تو معلوم ہوگاکہ چھڑی جو ایک بے جان شئی ہے وہ دوصحابی کے لیے روشن ہوگئی جو ان حضرات صحابہ کی کرامت اوران کے پیغمبر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بڑا معجزہ تھا ،نیز حضرت موسی کلیم اللہ اورحضرت رسول خداصلی اللہ تعالیٰ علیہما وسلم کی دونوں معجزات میں غوروفکر کرنے سے دونوں کافرق بھی نمایاں اورواضح ہے کہ وہاں ایک جلیل القدر نبی کا دست پاک خود ان کے وجود مسعود سے مل کر روشن ہواکرتاتھا مگر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شئ جو نہ آپ کے وجود کا حصہ تھی اورنہ آپ کے وجود مسعود سے مس ہوئی پھر بھی وہ روشن ہوگئی ۔
اسی طرح ایک اورصحابی کا واقعہ مشہورہے جسے امام احمد نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے ،واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور رحمت دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عشاکی نماز پڑھی ،رات سخت اندھیری تھی اورآسمان پر گھنگھور گھٹاچھائی ہوئی تھی ،جب حضرت قتادہ روانہ ہونے لگے تو حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بوقت روانگی اپنے دست پاک سے انہیں درخت کی ایک شاخ عطافرمائی اورارشادفرمایا:تم بلاخوف وخطر اپنے گھر جاؤ،یہ شاخ تمہارے ہاتھ میں ایسی روشن ہوجائے گی کہ دس آدمی تمہارے آگے اوردس آدمی تمہارے پیچھے اس کی روشنی میں چل سکیں گے اورجب تم گھر پہنچوگے تو ایک کالی چیز کو دیکھوگے اس کو مارکر گھر سے نکال دینا،چناں چہ ایساہی ہوا جیسے ہی حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاشانۂ نبوت سے باہر نکلے وہ شاخ روشن ہوگئی اوراسی کی روشنی میں چل کر اپنے گھر پہنچ بھی گئے نیز گھر پہنچ کر دیکھاکہ وہ کالی چیز موجودہے جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دی تھی پس حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم وارشاد کے مطابق انہوں نے اس کالی چیز کو مار کر گھر سے باہر نکال دیا۔
انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوا
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک مشہور معجزہ ’’پتھر سے پانی کا چشمہ جاری کرنا‘‘بھی ہے،اس کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بارہ گروہوں میں تقسیم کر دیا کیوںکہ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کی اولاد سے پیدا ہوئے تھے اور انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کر دیا تاکہ یہ باہم حسد نہ کریں اور ان میں لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت کی نوبت نہ آئے،یہ بارہ گروہ الگ الگ رہنے لگے ،ہرگروہ کا رہن سہن اوردیگر ضروریات زندگی جداجداہوگئی پھر جب آپ کی قوم کے الگ الگ گروہ نے پانی پینے کے لیے الگ الگ گھاٹ طلب کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو یہ وحی بھیجی کہ اپنا عصر پتھر پر مارو ،اس پرعصامارتے ہی اس سے بارہ چشمے جاری ہوں گے اورہر گروہ ایک ایک چشمہ سے سیراب ہوگا چناں چہ ایساہی ہوا ،قرآن حکیم میں واردہواہے:
وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا-وَ اَوْحَیْنَا اِلٰى مُوْسٰى اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗ اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ۴،ترجمہ:اور ہم نے انہیں بانٹ دیا بارہ قبیلے گروہ گروہ اور ہم نے وحی بھیجی موسیٰ کو جب اس سے اس کی قوم نے پانی مانگا کہ اس پتھر پر اپنا عصا مارو تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے(کنزالایمان)
یہ تو حضرت موسی علیہ السلام کا معجزہ تھا جیساکہ اوپر گزرا مگر اب آپ ملاحظہ کیجیے تاج دارحل وحرم ،فخر موسیٰ وناز آدم، حضور رحمت دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اسی نوع کا وہ معجزہ جس کا اعجاز حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ سے کہیں زیادہ دوبالااور نرالاہے چناں چہ حدیث کی کتابوں میں ہے کہ سنہ ۶ھ میں رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عمرہ کا ارادہ کرکے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے اورحدیبیہ کے میدان میں نزول فرمایا،آدمیوں کی کثرت کی وجہ سے حدیبیہ کا کنواں خشک ہوگیا اورحاضرین پانی کے ایک ایک قطرہ کے محتاج ہوگئےحتی کہ بعض اصحاب بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے پاس نہ وضو کےلیے پانی ہے اورنہ ہی پینے کے لیےپانی کا کوئی قطرہ توحضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دریاے رحمت جوش میں آگئی اورآپ نے ایک بڑے پیالے میں اپنا دست مبارک رکھ دیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پانچوں مبارک انگلیوں سے پانی کی ایسی نہریں جاری ہوئیں کہ قافلہ میں موجود تمام لوگ سیراب ہوگئے ،بلکہ قافلہ والوںنے وضووغسل بھی کیا،جانوروں کو بھی پلایا،تمام مشکوں اوربرتنوں کو بھی بھرلیا،پھرجب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پیالہ سےاپنا دست مبارک اٹھالیاتوپانی ختم ہوگیا ، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لوگوں نے پوچھا کہ اس وقت تم کتنے لوگ تھے؟تو انہوں نے فرمایاکہ ہم پندرہ سو لوگ تھے مگر پانی اس قدر زیادہ تھاکہ اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو سب کو پانی کافی ہوجاتا ،یہ روایت کمی بیشی کے ساتھ مختلف کتب احادیث میں مذکورہے ،مشکوۃ المصابیح کے الفاظ یہ ہیں :
’’عن جابر قال عطس الناس یوم الحدیبیۃ و رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بین یدیہ رکوۃ فتوضأ منھا ثم اقبل الناس نحوہ قالوا لیس عندنا ماء نتوضأ بہ و نشرب الا مافی رکوتک فوضع النبی صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یدہ فی الرکوۃ فجعل الماء یفور من بین اصابعہ کامثال العیون قال فشربنا و توضأنا قیل لجابر کم کنتم؟ قال لو کنّا مائۃ الف لکفانا کنا خمس عشرۃ مائۃ متفق علیہ‘‘(۵)
نیز بخاری شریف میں بھی یہ روایت کئی مقام پر منقول ہے اورکئی راویوں کی روایت سے مروی ہے ،بخاری شریف کی جلد اول صفحہ انتیس میں بھی اجمال کے ساتھ اس واقعہ کا ذکر ہے جس کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی صاحب دل نے یوں نظم فرمایاہے :
معجزہ شق القمر،سورج کا آنا گھوم کر
اختیارِمصطفےٰہے اے قلم منظوم کر
صفحہ انتیس جلد اِک کھولو بخاری چوم کر
انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں پنچ آبِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ
دونوں معجزات پر غورکرنے سے عیاں ہے کہ وہاں پتھر سے پانی کا چشمہ جاری ہوا تھا جو یقیناً عادت کے خلاف ہے تاہم پتھر سے پانی جاری ہوسکتاہے جیساکہ پوشیدہ نہیں مگر انسانی انگلیوں سے پانی نکلنا نہ صرف عادت کے خلاف بلکہ ناممکن شئی ہے اوراس پربھی کمال وخوبی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہونا صرف ایک دوبارکا واقعہ نہیں ہے بلکہ کم وبیش تیرہ موقعوں پر آپ کی مقدس انگلیوں سے پانی کی نہریں جاری ہوئی ہیں جیساکہ شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفےٰ اعظمی قدس سرہ نے اپنا حاصل مطالعہ پیش کیا ہے دیکھیں سیرت مصطفےٰ (۶)
شفاے امراض اوربے جان چیزوں میں جان
جلیل القدر پیغمبروں میں سے ایک عظیم نبی ورسول سیدنا عیسی روح اللہ علی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام بھی ہیں چوں کہ ان کے دورمیں طبیبوں اورحکیموں کا بول بالاتھا ،فن طبابت کا ہرجانب شوروغلغلہ تھا ،اس زمانے کے ڈاکٹروں نے بڑے بڑے اورمہلک وجان لیوا امراض کا علاج کرکے اپنی فنی مہارت سے تمام انسانون کو مسخر ومسحورکرلیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی روح اللہ علیہ السلام کومادرزاد اندھوں اورکوڑھیوں کو شفادینے اورمردوں کوزندہ کرنے کا عظیم معجزہ عطافرمایا جسے دیکھ کر اس دورکے اطبااورحکما کے ہوش اڑگئے اورحیران وششدررہ گئے حتی کہ ان معجزات کو انسانی کمالات سے بالاترمان کر باطل دین چھوڑدیا اورآپ کی نبوت کا اقرارکرکے آپ پر ایمان لے آئے ۔
حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے چڑھتے سورج کی طرح عیاں ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس نوع کے بہت سے معجزات سے نوازاہے جس کا ظہور بارہاہوا ،اگر اس قسم کے تمام معجزات کو جمع کیا جائے تو اس مختصر مضمون کا دامن تنگ پڑجائے گا ،مشتے نمونہ از خروارےصرف چند اہم واقعات تحریرکرنے پر اکتفاکرتاہوں۔
تلوار کا زخم اچھا ہوگیا
غزوۂ خیبر میں حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ٹانگ میں تلوار کا زخم لگ گیا ، وہ فوراً ہی بارہ گاہ نبوت میں حاضر ہوگئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے زخم پرتین مرتبہ دم کردیا پھر انہیں درد کی کوئی شکایت محسوس نہیں ہوئی، صرف زخم کا نشان رہ گیا تھاچناں چہ بخاری شریف میں ہے :
’’حدثنا یزید بن ابی عبید قال :رأیت اثر ضربۃ فی ساق سلمۃ فقلت یا ابا مسلم ما ھذہ الضربۃ ؟ فقال :ھذہ ضربۃ اصابتھا یوم خیبر ، فقال الناس :اُصیب سلمۃ ، فاتیت النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فنفث فیہ ثلاث نفثات ، فمااشتکیت حتی الساعۃ ‘‘۷
اندھابینا ہوگیا
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک اندھا حاضر ہوا اور اپنی تکالیف بیان کرنے لگا ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری خواہش ہوتومیں دعا کردوں اور اگر چاہو تو صبر کرو یہی تمہارےلیے بہتر ہے ،اس نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میری بینائی کے لیے دعا فرما دیجئے،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اچھی طرح وضو کرکے یہ دعا مانگوکہ ’’ خدا وند! اپنے رحمت والے پیغمبر کے وسیلہ سے میری حاجت پوری کردے‘‘ ،اس نابینا نے ایسا کیا تو فوراً ہی اچھاہوگیا اور اس کی آنکھوں میں بھرپور روشنی آگئی ،یہ واقعہ مسند امام احمد بن حنبل میں ہے،حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں:
’’عن عثمان بن حنیف، ان رجلا ضریر البصر أتی النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فقال:ادع اللہ ان یعافینی ، قال ’’ان شئت دعوت لک ، وان شئت اخرت ذاک فھو خیر، فقال :ادعہ فامرہ ان یتوضأ فیحسن وضوہ ویصلی رکعتین ویدعوبھذا الدعاء: ’’اللھم انی اسالک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ یا محمد انی توجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ فتقضی لی اللھم شفعہ فیّ‘‘ ۸
گونگا بولنے لگا
حجۃ الوداع کے موقع پرحضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ’’خثعم ‘‘ کی ایک عورت اپنے بچے کو لے کرآئی اور کہنے لگی کہ یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ میرا اکلوتا بیٹا ہےجوبولتا نہیں ہے ،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پانی طلب فرمایا اور اس میں ہاتھ دھو کر کلی فرمادی اور ارشاد فرمایا کہ یہ پانی اس بچے کو پلا دو اور کچھ اس کے اوپر چھڑک دو ۔ دوسرے سال وہ عورت آئی تو اس نے لوگوں سے بیان کیا کہ اس کا لڑکا اچھا ہوگیا اور بولنے لگاچناں چہ صحاح ستہ کی عظیم کتاب سنن ابن ماجہ میں ہے:
’’عن ام جندب قالت رایت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رمی جمرۃ العقبۃ من بطن الوادی یوم النحر ثم انصرف وتبعتہ امرأۃ من خثعم ومعھا صبی لھا بہ بلاءلایتکلم فقالت یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان ھذا ابنی وبقیۃ اہلی وان بہ بلاء لایتکلم فقال رسول اللہ ﷺ ائتونی بشیٔ من ماء فاتی بماء فغسل یدیہ و مضمض فاء ثم اعطاھا فقال اسقیہ منہ وصبی علیہ منہ واستشفی اللہ لہ قالت فلقیت المرأۃفقلت لو وھبت لی منہ فقالت انما ھو لہذا المبتلی قالت فلقیت المرأۃ من الحول فسالتھا عن الغلام فقالت برأ وعقل عقلاً لیس کعقول الناس‘‘ ۹
حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نکلی آنکھ درست ہوگئی
جنگ احد میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ میں ایک تیر لگا جس سے ان کی آنکھ ان کے رخسار پر بہ کر آگئی ، یہ دوڑکر حضور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فوراً ہی اپنے دست مبارک سے ان کی بہی ہوئی آنکھ کو آنکھ کے حلقہ میں رکھ کر اپنا مقدس ہاتھ اس پر پھیر دیا تواسی وقت ان کی آنکھ اچھی ہوگئی اور یہ آنکھ ان کی دوسری آنکھ سےزیادہ خوب صورت اور روشن رہی ۔المواہب مع شرح زرقانی میں ہے:
’’(واصیبت) بسھم ویقال یرمح (یومئذ) ای یوم احد وقیل یوم بدر وقیل یوم الخندق والاول قالہ فی الاستیعاب (عین قتادۃ بن النعمان) بن زید الاوسی المدنی (حتی وقعت علی وجنتہ فاتی بھا الی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فاخذھا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بیدہ وردھا الی موضعھا وقال اللھم اکسہ جمالاًفکانت احسن عینیہ واحدھما ) اقواھما(نظراً) ‘‘۰
ٹوٹی ہوئی ٹانگ درست ہوگئی
بخاری شریف جلد دوم کتاب المغازی باب قتل ابی رافع میں ایک طویل حدیث مروی ہےجس میں یہ بھی منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ابو رافع یہودی کو قتل کرکے واپس آنے لگے تو اس کے کوٹھے کے زینے سے گرپڑے جس سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور ان کے ساتھی ان کو اٹھا کر بارگاہ نبوت میں لائے، حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی زبان سے ابورافع کے قتل کاسارا واقعہ سنا پھرفرمایا اپنا پاؤ پھیلاؤ چناں چہ انہوں اپنی ٹانگ پھیلادی اور ان کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ پرحضور طبیب اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک پھیر دیا تو وہ فوراً ہی اچھی ہوگئی اور یہ معلوم ہونے لگا کہ ان کی ٹانگ میں کبھی کوئی چوٹ لگی ہی نہ تھی (انطلقت الی اصحابی فقلت :النجاۃ فقد قتل اللہ ابارافع فانتھیت الی النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فحدثتہ فقال ابسطت رجلک فبسطت رجلی فمسحھا فکانما لم اشتکھا قط )
بے جان چیزوں میں جان ڈال دی
حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام کا معجزہ یہ تھا کہ آپ نے مردوں کو دوبارہ زندہ کردیا مگر حضور رحمت دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہ صرف مردوں کو زندہ فرمایا بلکہ جن میں زندگی کا نام ونشان نہیں تھا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان میں بھی جان ڈالی بلکہ انسانوں کی طرح عشق رسول کا سوزوگداز بھی عطافرمادیا جس پراستن حنانہ شاہدوگواہ ہے،ذیل میں چند نمونے ملاحظہ کریں ۔
(۱)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفرمیں تھے،ایک اعرابی آپ کے پاس آیا ،آپ نے اس کواسلام کی دعوت دی ،اس اعرابی نے سوال کیا کہ کیا آپ کی نبوت پر کوئی گواہ بھی ہے ،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں یہ درخت جو میدان کے کنارہ پر ہے میری نبوت کی گواہی دے گا چناں چہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس درخت کو بلایا تووہ فوراًہی زمین چیرتاہوا اپنی جگہ سے چل کر بارگاہ اقدس میں حاضر ہوگیا اوراس نےبہ آواز بلند تین مرتبہ آپ کی نبوت کی گواہی دی پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اشارہ فرمایا تووہ درخت زمین میں چلتاہوا اپنی جگہ پر چلا گیا ۔(۱۱)
(۲)اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ سفرمیں ایک منزل پر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم استنجا فرمانے کے لیے میدان میں تشریف لے گئے مگر کہیں کوئی آڑ کی جگہ نظر نہیں آئی ،ہاں البتہ اس میدان میں دودرخت نظر آئے جو ایک دوسرے سے کافی دوری پر تھے ،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک درخت کی شاخ پکڑکر چلنے کا حکم دیا تووہ درخت اس طرح آپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگا جس طرح مہاروالا اونٹ مہارپکڑنے والے کے ساتھ چلنے لگتاہے،پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دوسرے درخت کی ٹہنی تھام کر اس کو بھی چلنے کا حکم ارشادفرمایا تووہ بھی چل پڑا اوردونوں درخت ایک دوسرے سے مل گئے اورآپ نے اس کی آڑمیں اپنی حاجت رفع فرمائی ،اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا تووہ دونوں درخت زمین چیرتے ہوئے چل پڑے اوراپنی اپنی جگہ پر پہنچ کر جاکھڑے ہوئے۔یہی وہ معجزہ ہے جس کو حضرت علامہ بوصیری علیہ الرحمہ نے اپنے قصیدہ بردہ میں تحریرفرمایا
جاءت لدعوتہ الاشجارساجدۃ
تمشی الیہ علی ساق بلاقدم
یعنی آپ کے بلانے پر درخت سجدہ کرتے ہوئے اوربلاقدم کے اپنی پنڈلی سے چلتے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے۔(۱۲)
(۳)امام بخاری و مسلم حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ جس رات جنات کو بارگاہ نبوت میں حاضری کا شرف نصیب ہوا انہوں نے مطالبہ کیاکہ ہمیں کوئی ایسی نشانی دکھائیے جس سے ہمیں یقین ہوجائے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ درخت میرا گواہ ہے ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس درخت کو حکم دیا کہ آئے اور میری نبوت کی گواہی دے ،چناں چہ وہ درخت سرکارکا حکم پاتے ہیں اپنی جڑوں کو گھسیٹتا ہوا حاضر خدمت ہوگیا اورآپ کی رسالت و نبوت کی گواہی دی ۔
(۴)شیخ محدث عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریرفرماتے ہیں :حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مردوں کو زندہ فرمانا متعدد مرتبہ واقع ہوا ہے نیز پتھروں اورکنکریوں کا آپ کے دست اقدس پر تسبیح کرنا اورحجر اسود کا آپ کو سلام کرنا اوراستن حنانہ کا آپ کے فراق میں گریہ وزاری کرنا مردوں کے کلام سے زیادہ اتم وابلغ ہے ۔(۱۳)
امام عشق ومحبت سیدی امام احمدرضا قدس سرہ مذکورہ واقعات کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے منظوم کلام میں تحریرفرماتے ہیں :
اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم، جانور بھی کریں جن کی تعظیم
سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم، پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں (۱۴)
لڑکی قبر سے نکل آئی
روایت میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ میں اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لاسکتا جب تک کہ میری مردہ بیٹی زندہ نہ ہوجائے ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھے اس کی قبر دکھاؤ اس نے اپنی لڑکی کی قبر دکھادی، حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لڑکی کا نام لے کر پکا را تواس لڑکی نے قبر سے نکل کر جواب دیا کہ’’لبیک وسعدیک ‘‘ یعنی حضور! میں آپ کے دربار میں حاضر ہوں ۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لڑکی سے فرمایا کہ ’’کیا تم پھر دنیا میں لوٹ کرآنا پسند کرتی ہو؟لڑکی نے جواب دیاکہ ‘‘ نہیں یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے ماں باپ سے زیادہ مہربان اور آخرت کو دنیا سے بہتر پایا ‘‘ المواہب اللدنیہ مع شرح الزرقانی میں ہے :
’’روی البیھقی فی الدلائل :انہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دعا رجلاً الی الاسلام فقال :لا أومن بل حتی یحیی لی ابنتی ، فقال صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :ارنی قبرھا ، فاراہ ،فقال صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :یا فلانۃ ای ناداھا باسمھا الخاص (فقالت )وقد خرجت من قبرھا،(لبیک) اجابۃ لک بعد اجابۃ (وسعدیک) اسعاداً لک بعد اسعاد ، ومعناہ سرعۃ الاجابۃ والانقیاد، (فقال صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ’’اتحبین ان ترجعی‘‘فقالت:لا واللہ یارسول اللہ ) لااحب ذلک (انی وجدت اللہ ) حین انتقلت الی دار کرامتہ (خیراً لی من ابوی) وماعندھما( ووجدت الآخرۃ خیراً لی من الدنیا)‘‘(۱۵)
یہ تومحض نمونہ ہے ورنہ انبیاے سابقین میں سے ایک ایک نبی کاایک ایک معجزہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر دیکھاجائے اورمصطفےٰ جان رحمت ،شمع بزم ہدایت،نوشہ بزم جنت سیدی ومولائی وملجائی حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں تلاش کیاجائے تویہ رازشمس وامس کی طرح عیاں ہوجائے گاکہ حضور کی سیرت طیبہ میں انبیاے سابقین کے معجزات بدرجہ اتم وابلغ موجودہیں اورجوخصائص وکمالات اورانبیاورسل کو دیے گئے تھے وہ سب تنہا حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات میں جمع ہیں بلکہ بہت ایسے بھی کمالات جو دیگر انبیاکو نہ عطاہوئے اسی لیے مشہور عاشق رسول ،صوفی باصفا حضرت علامہ جامی قدس سرہ السامی فرماتےہیں :
حسن یوسف ،دم عیسیٰ ،ید بیضا داری
آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری
کتابیات
(۱)حدائق بخشش جلد اول۔
(۲)حدائق بخشش جلد دوم۔
(۳)مشکوۃ المصابیح ،کتاب الفضائل والشمائل،باب الکرامات ،ص ۵۴۴:۔
(۴)سورۂ اعراف ،۱۶۰۔
(۵)مشکوۃ المصابیح ،کتاب الفضائل ،باب المعجزات ،ص ۵۳۲:۔
(۶)سیرت مصطفےٰ مکتبۃ المدینہ ،ص ۸۱۶:۔
(۷)کتاب المغازی ، باب غزوۃ خیبر :ج: ۲، ص:۶۰۵، مجلس برکات۔
(۸)حدیث عثمان بن حنیف،رقم الحدیث:۱۷۲۴۰۔
(۹)کتاب الطب، باب النشرۃ ،رقم الحدیث: ۳۵۳۲۔
(۱۰)باب غزوۃ احد ،ج:۲، ص:۴۳۲۔
(۱۱)سیرت مصطفےٰ،ص ۷۷۴:۔
(۱۲)سیرت مصطفےٰ ،ص ۷۷۶:۔
(۱۳)مدارج النبوہ ،مترجم ،اول ،ص ۲۱۷:۔
(۱۴)حدائق بخشش حصہ اول ۔
(۱۵)باب ابراء ذوی العاھات الخ :ج:۷،ص:۶۱/۶۲۔
طالب دعا
مشتاق احمد امجدی غفرلہ
ازہری دارالافتاء،ناسک
شب یکم ربیع النور ۱۴۴۷ھ
Leave A Comment