*عمرہ کے لکی ڈر امیں حصہ لینا اوراس پیسے سے عمرہ کرنا کیسا؟*
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ
عمرہ لکی ڈرا۳۰۰ ؍لوگوں نے ۲۵۰؍روپے کا کوپن لیا جس میں کسی ایک کو لکی ڈرانکلے گا وہ عمرہ کے لیے جائے گا ،ایسے میں عمرہ کرنا درست ہے کیا؟
*المستفتی :* شیخ ناصر،نائیکواڑی پورہ جونے ناسک،مہاراشٹر
﷽
*حامداومصلیا ومسلماالجوابـــــــــ بعون الملک الوھاب*
اس طرح عمرہ کرناناجائز وحرام ہے کہ اس میں جتنے لوگ کوپن خریدتے ہیں سبھی یہ امیدرکھتے ہیں کہ دوسروں کے پیسوں سے عمرہ کرنے کا موقع مجھے مل جائے جبکہ یہ فائدہ صرف کسی ایک کو ملتاہے دوسرے لوگ اس سے محروم ہوتے ہیںبلفظ دیگر عمرہ کا ٹکٹ حاصل کرنے کی لالچ میں ان کا پیسہ ڈوب جاتاہے،یہی جواکی حقیقت ہے اورجوابنصِ قطعی حرام وگناہ ہے، اس پر تمام علمائے امت کا اجماع واتفاق ہے، اس میں کسی کاکوئی اختلاف نہیں ،لہذا اس طرح کی اسکیم چلانا وہ بھی عمرہ جیسی عبادت کے لیے سخت ناپسندیدہ عمل ہے اس سے کامل پرہیزکرناچاہیے،اللہ عزوجل ارشادفرماتاہے:
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْن[المائدہ،۹۰]یعنی اے ایمان والو! شراب، جوا،بت اورفال کے تیرناپاکی ہیں اورشیطانی کام ہے ان سے بچوتاکہ کامیابی پاؤ(کنزالایمان)
اورفرماتاہے:
يَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِـيْهِمَآ اِثْـمٌ كَبِيْـرٌ وّمَنَافِــعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُهُمَآ اَكْبَـرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا وَ[البقرہ،۲۱۹]یعنی تم سے شراب اورجوے کا حکم پوچھتے ہیں تم فرمادوکہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اورلوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اوران کا گناہ ان کے نفع سے بڑاہے۔(کنزالایمان)
اس آیت کے تحت تفسیرروح المعانی میںہے:
وفی حکم ذلک جمیع انواع القمار من النرد والشطرنج وغیرھما حتی دخلوا فیہ بعث الصبیان بالجوز واللعاب القرعۃ فی غیرالقسمۃ وجمیع المخاطرۃ والرھان وعن سیرین کل شئی فیہ خطر فھو من المیسر‘‘
ردالمحتارمیں ہے:
القمارمن القمر الذی یزید وینقص اخریٰ وسمی القمار قمارا لان کل واحد من المقامرین ممن یجوز ان یذھب مالہ الی صاحبہ ویجوز ان یستفید مال صاحبہ وھو حرام بالنص‘‘[کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبرا،ج۹:،ص ۵۷۷-۵۷۸:]
بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی قدس سرہ تحریرفرماتے ہیں:
آج کل کی مروجہ لاٹری کے جوا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کے عقد میں ہی نفع ونقصان کا دھڑکا داخل ہے لیکن علامہ آلوسی نے تو ’’القرعۃ غیر القسمۃ‘‘کہہ کر خاص طور سے لاٹری کا نام ہی لے دیا کہ مال سب شرکاء نے مل کر جمع کیا اورشرط یہ لگائی کہ قرعہ ڈالاجائے اورجس کا نام نکل آئے وہ پورامال یا اس کا متعینہ حصہ لے لے تو شرعاً اس کے جوااورحرام ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ اس میں ٹکٹ کے پیسے کا نقصان اورلاکھوں کے فائدے کا امکان ہے اوریہی جوے کی حقیقت اورروح ہے،پس لاٹری جوے کا انگریزی نام ہے یا جوے کی نوایجاد قسم ہے جو بنص قرآن وبتصریح حدیث وتوضیح فقہا حرام وناجائز ہے اورلوگوں کی بربادی اوربداخلاقی کا سرچشمہ ہے [فتاویٰ بحرالعلوم، کتاب البیوع،سود کا بیان ،ج۴:،ص ۸۸-۸۹:]۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
*کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ*
ابوالاخترمشتاق احمدامجدی غفرلہ
ازہری دارالافتاء،ناسک
۲۰؍ربیع الاول ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۷؍اکتوبر ۲۰۲۲ء
Leave A Comment